شناسائی

تحریر ۔۔ سالک وٹو ۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ''' شــنا سا ئی ''' ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عقیدتیں پالنے کے لیے کسی کے بارے میں جاننا ،ماننا یا پہچاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔اگر آپ کو کسی کے بارے میں کوئی علمی یا عملی شناسائی نہیں ہو گی تو آپ اپنی عقیدتیں وابسطہ نہیں کر پاو گے ۔
شناسائی کے کئی ذرائع ہو سکتے ہیں ۔ جن میں سے کچھ ذرائع کے بارے میں یہاں ہم بات کریں گے ۔۔
'' عملی شناسائی ''
اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے زمانہ مبارک کی بات ہے کہ مکہ مکــرمہ میں ایک ضعیف عورت رہتی تھی ۔کافروں نے اسے بتایا کہ (نعوذ باللہ) مکہ میں ایک جادوگر آیا ہے جو ہمارے خداوں کو برا بھلا کہتا ہے ۔اس بوڑھی عورت کو کافروں نے نبی پاک ﷺ کے متعلق غلط شناسائی کرا دی جس کی وجہ سے وہ ضعیف عورت آپ ﷺ کت متعلق برا گمان رکھنے لگی اور اپنا موجودہ مذہب و عقیدہ بچانے کے لیے اس نے اپنا سامان باندھا اور مکہ مکرمہ کو چھوڑنے کا قصد کیا ۔پھر کیا ہوا کہ وہ ضعیف عورت اپنا سامان باندھ کے کسی کی مدد کے انتظار میں ایک چوک میں بیٹھی تھی کہ کوئی اس کے سامان کی گٹھڑی اٹھا کے اسے منزل تک پہنچا دے ۔قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ نبی پاک ﷺ اس طرف تشریف لے آئے ۔اور اماں سے وہاں بیٹھنے کا سبب پوچھا ۔
بوڑھی اماں نے اپنی رام کہانی سنائی ۔۔
تو نبی پاک ﷺ نے اس کا سامان اٹھایا اور کافی دور اس کی منزل تک پہنچا دیا راستے میں وہ بہت برا بھلا کہتی رہی لیکن مجسم رحمت ﷺ نے کمال محبت سے اس عملی آشنائی کو نبھایا ۔۔۔
جب منزل پہ پہنچ گئے تونبی پاک ﷺ نے واپسی کی اجازت طلب کی تو اس ضعیف عورت نے آُ پ ﷺ سے دریافت کیا کہ ۔۔
آپ کون ہیں ؟
تو جب نبی پاک ﷺ نے بتایا کہ اماں جی میں ہی اللہ کا رسول ﷺ ہوں تو وہ ضعیف عورت فوری ایمان لے آئی اور مسلمان ہو گئی ۔
دیکھیں اس عورت کو پہلی شناسائی اطلاعا تھی یعنی کافروں نے جو اسے بتایا اس ضعیفہ نے اسی اطلاع کے مطابق اپنی سوچ بنا لی ۔۔۔لیکن نبی پاک ﷺ نے اپنے عمل سے اسے شناسائی کرائی تو اس کی سوچ عقیدت اور محبت میں بدل گئی ۔یہ عملی آشنائی میں بہت کشش اور مضبوطی ہوتی ہے ۔۔
'' کتابی اور سماعتی شناسائی ''
مثلا اگر کسی نے ممتاز مفتی ،اشفاق احمد۔بانو قدسیہ ، واصف علی واصف اورقدرت اللہ شہاب کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو یا کسی سے ان حضرات کی بزرگی و ادبی کاوشوں کے بارے میں سنا ہو تو سننے والے یا پڑھنے والے کے دل میں ان سے عقیدت و آشنائی پیدا ہو جائے گی ۔۔ اور اگر اسے ان لوگوں سے کبھی ملاقات کا موقع ملے تو اس کی عقیدت اور محبت دیدنی ہو گی ۔۔ ۔لیکن اگر کسی نے ان حضرات کے بارے میں کچھ سنا یا پڑھا ہی نہ ہو تو خواہ واصف علی واصف یا اشفاق احمد اسے ہزار بار بھی ملیں تو وہ انہیں ایک عام انسان سمجھ کے بغور دیکھے گا بھی نہیں ۔۔۔
اس لیے آج کے دور میں ہمیں بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے ۔کسی بزرگ کے متعلق مبالغہ آرائی سے صرف نظر کریں ۔۔اور نہ ہی کسی کی عقیدتوں کو شک کا زہر دیں ۔۔بس حقیقت آشنائی کی کوشش کریں ۔
آج کے عقیدت مند جو اولیــا ء کــرام سے ایسی من گھڑت کرامات منسوب کرتے ہیں ۔کہ اگر وہ کرامات خود وہ اولیــا ء کــرام سن لیں جن سے وہ منسوب کی جا رہی ہیں تو وہ منسوب کرنے والوں کو فوری سے پہلے '' دوبارہ کلمہ پڑھنے کا حکم دیں ''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ''' سالک وٹو ـــــ

اکلاپا

تحـــریر ۔۔۔ سالک وٹو ۔۔
'' اکلاپا
زندگی ہر لمحہ اپنا روپ بدلتی رہتی ہے۔انسان ہر حال سفر پہ ہے وجودی سفر ہو یا خیالی سفر۔بڑے بڑے حادثوں میں بھی یہ سفر جاری رہتا ہے۔زندگی میں کئی دفعہ ایسے نازک موڑ بھی آ جاتے ہیں جب انسان زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔حادثے۔بیماری اور حالات زندگی میں کئی دفعہ انسان کو موت سے آشنا کرا دیتے ہیں۔۔ایسے نازک موڑ سے بچ جانا کوئی حادثاتی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ سب قدرت کے کھیل ہوتے ہیں۔ جن لوگوں سے کوئی خاص کام لینا ہوتا ہے انہیں وہ خود مایوسی سے یقین کی طرف بلا لیتا ہے۔۔
انسان کے آنے اور جانے کے درمیانی زمانے کا نام ہی زندگی ہے۔ہمارا سارا کھونا، پانا،محبتیں، نفرتیں اسی زمانے کی حد میں ہیں۔ہر جگہ اپنی ذات کو منوانے کی خواہش زندگی کے سفر کو تلخ بنا دیتی ہے۔۔ہر ملاقات کو آخری ملاقات سمجھو گے تو دل سے کدورتیں ختم ہو جائیں گی۔ہم سفروں کو ہم خیال بنا لو تو زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔دوسروں کی خوشیاں چھن جانے کی خواہش ذہنی اذیت کے سوا کچھ نہیں۔ہماری گفتگو، عمل اور سوچیں ہماری کھیتی ہیں جو عنقریب ہمیں اپنے ہاتھ سے کاٹنا ہو گی۔۔ کسی کا دکھ سن کے دکھی ہو جانا اللہ کے فضل کی نشانی ہے۔انسانوں کےدکھوں کو سکھوں میں بدلنے کی خواہش زندگی میں کشادگی پیدا کر دیتی ہے۔دلِ بینا ہو تو آنکھ ہر رنگ میں اپنے خالق کے رنگ کو پا لیتی ہے،
پچھلی سردیوں میں میرے ایک دوست ڈسٹرکٹ ہسپتال ساہیوال میں زیر علاج تھے۔میں ان کی تیمار داری کے لیے ہسپتال پہنچا۔ایمر جنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ کاؤنٹر سے مریض کا پوچھا تو مجھے انتظار کا کہا گیا۔کیوں کہ ایم۔ ایس۔ ایمرجنسی کے راؤنڈ پہ تھا۔میں راہ داری میں لگی ہوئی کر سیوں میں سے ایک کرسی پہ بیٹھ گیا۔ انسان بھی بڑی عجیب مخلوق ہے بعض اوقات بھیڑ میں بھی تنہا ہو جاتا ہے۔اور اکثر تنہائی میں بھی میلا لگا لیتا ہے۔میں بھی موجودہ ماحول سے بے خبر سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے اپنے کندھے پہ بوجھ محسوس ہوا۔میں خیالوں کی دنیا سے باہر آیا تو دیکھا کہ ایک ضعیف،کمزور اور انتہائی مفلس حال بوڑھی عورت مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔میں نے ایک ہی نظر میں اس کا جائزہ لیا۔پھٹے پرانے کپڑے،پاؤں میں ٹوٹی چپل اور ایک بوسیدہ سے کمبل سے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اس بوڑھی اماں جی کے ہاتھ میں ایک ایکسرے اور دوائیوں کی کچھ پرچیاں تھیں۔اس نے ڈرتے ڈرتے مجھ سے پوچھا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کب آئیں گے ؟ میں صبح سے آ ئی بیٹھی ہوں کوئی میری بات ہی نہیں سنتا۔میں نے نہایت ہی نرم لہجے میں کہا۔۔ماں جی مجھے ڈاکٹر کا تو پتا نہیں۔میں تو بس اپنے ایک دوست کا پتا کرنے یہاں آیا ہوں۔ اماں جی کو بار بار کھانسی کا دورہ پڑتا۔۔ میں نے مزید کہا ماں جی اتنی شدید سردی میں آپ دوائی لینے کیوں آئی ہیں اپنے بیٹے کو بھیج دیتیں۔۔۔۔ کیا آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے ؟ میرے سوال کے جواب میں اماں جی کی آنکھوں سے دو ٓآنسو نکلے اور چہرے کی جھریوں میں گم ہو گئے۔اس چہرے کی جھریوں میں ایک درد کا جہان آباد تھا۔ان آنکھوں میں زمانے کی محرومیاں مجھے واضح نظر آ رہی تھیں۔اماں جی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔۔۔۔۔۔ میرے دوبارہ استفسار پہ اماں جی بولیں تو اس کے لہجے میں دنیامیں دنیا جہاں کا درد اتر آیا۔۔ میرا ایک بیٹا ہے محمد شریف۔اللہ سوہنا اس کو اور خوشیاں دے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہتا ہے۔اور کبھی کبھی بس ملنے آ جاتا ہے۔ میں نے اگلا سوال کر دیا۔۔ ماں جی پھر آپ اکیلی رہتی ہیں؟۔۔ وہ بولی نہیں بیٹا اکیلی نہیں۔میں اور محمد شریف کا ابا دونوں رہتے ہیں گاوں میں۔۔میں نے پھر پوچھا۔تو آپ ہسپتال انہیں بھیج دیتیں۔ وہ بولی بیٹا : وہ بہت بیمار ہیں وہ تو چارپائی سے بھی نہیں اٹھ سکتے۔بس بیٹے کا روگ دل پہ لگا لیا ہے اور اسی روگ میں اپنے آپ کو ختم کیے جا رہا ہے۔۔ شاید دکھ کھول ے سے ہلکے ہو جاتے ہیں میں بھی ما تا ہوں اس بات کو اسی لیے ہم ایک دوسرے سے دکھ کھولتے رہتے ہیں یا شاید اس لیے کہ کچھ زخم ہم خود بھر اہی ہیں چاہتے اس لیے ہم اسے کریدتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ اماں جی بھی اپنے زخم کرید ے لگی۔ وہ بولی۔۔۔بیٹا ہمارے پاس بھی گاوں میں زمین تھیں۔ہم بھی بڑے سکھی تھے،پھر محمد شریف کی پڑھائی کے لیے ساری جمع پو نجی لگا دی۔اور محمد شریف شہر میں ایک بڑا افسر بن گیا۔اور شہر میں ہی شادی کرالی۔پھر محمد شریف نے ہماری زمین بھی بکوا دی کہ ہم شہر میں گھر لیں گے اور وہاں ہی سکو ن سے رہیں گے۔۔۔ اس نے شہر میں ایک بڑا گھر بھی لے لیا ہے۔لیکن وہ ہمیں تو بھول ہی گیا۔ہم نے محمد شریف کی بچپن میں ہی منگنی اس کے ماموں کے گھر کر دی تھی لیکن اس نے وہ بھی توڑ دی۔اور اس لیے اب برادری بھی ہم سے دور ہو گئی ہے۔۔میری یہ کم بخت کھا نسی ہی جان نہیں چھوڑتی۔اور شریف کے ابا نے تو اپنے آپ کو روگ ہی لگا لیا ہے۔۔ بیٹا اس آخری عمر میں اکلاپے کا دکھ سہا نہیں جاتا۔سب دکھوں سے بڑا دکھ اکلاپے کا ہے۔موت کا فرشتہ بھی ہم کو بھول گیا ہے۔۔۔ میں روز گاوں سے آتی ہوں اپنی اور شریف کے ابا کی دوائی لینے۔لیکن یہ لوگ ڈاکٹر سے ملنے ہی نہیں دیتے۔۔۔ اتنے میں اس وارڈ سے متعلقہ ایک نرس آ نکلی۔ماں جی اس کی طرف متوجہ ہوئی تواس نرس نے بڑے غصے سے ماں جی کا بازو پکڑااور یہ کہتے ہوئے اسے راہ داری سے باہرلے جا نے لگی کہ۔اماں جی آپ کو کتنی بار کہا ہے کہ پہلے یہ سب ٹیسٹ کروا کے لاو پھر ڈاکٹر صاحب دوائی دیں گے۔۔۔ 
میں جلدی سے اپنے دوست کے پاس پہنچا۔جلدی سے تیمار داری کی رسمی کاروائی کی اور باہر کی طرف لپکا۔۔میں نے تیزی سے جا کے اماں جی کو روکا اور پوچھا۔کیا ہوا؟وہ بولی۔پتر یہ روز مجھے یہ کہ کے ہسپتال سے نکال دیتے ہیں کہ ٹیسٹ کروا کے لاو باہر سے۔اب میں کدھر جاوں۔میرے پاس کرائے کے تھوڑے سے پیسے ہوتے ہیں۔جو میں ٹوکریاں اور چھابے بنا کے کماتی ہوں۔ٹیسٹوں والے بات نہیں سنتے۔۔ میں ے کہا۔محمد شریف آپ کی مدد نہیں کرتا۔۔۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کے بولی۔اس کے شہر والے گھر کا تو مجھے پتا ہیں ہے۔اور گاوں وہ پہلے تو اکثر آتا تھالیکن اب دو تین مہینوں کے بعد آتا ہے اور تھوڑی دیر بیٹھ کے اپنے دکھ سنا کے چلا جاتا ہے۔۔اصل میں ہمیں محمد شریف کے پیسوں کی ضرورت نہیں بلکہ محمد شریف کی ضروت ہے۔ہماری بہو نے ہم سے ہمارا بیٹا چھین لیا ہے۔میں نے اماں جی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو اس نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ بیٹے۔ہمیں کسی کے سہارے کی اب عادت نہ ڈالو اب ہمیں اپنے جسم کا بوجھ خود ہی اٹھا نا ہو گا۔۔
میں اماں جی کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔۔اور میری حالت بقول شاعر یہ تھی
۔ 
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
یہ زندگی کے اصلی روپ اور دکھی کردار ہمارے درمیان ہی پھرتے ہیں۔لیکن ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں تو کوئی دوسرا نظر آئے۔ہمارے تمام تر مفاد بس اپنی ذات سے ہی وابسطہ ہیں بس اپنی ذات کا ہی مادی فائدہ سوچنا انسان کو حقیقی مفاد سے دور کر دیتا ہے ا ور دوسروں کا احساس ہی ہمارے حقیقی مفاد کا ضامن ہے۔ کچھ تصویریں انسان کی روح میں پیوست ہو جاتی ہیں اور جاگتا ضمیر ان تصویروں کی جھلک انسانی شعور کو دکھاتا رہتا ہے۔ یہ غیروں کی باتیں نہیں ہیں۔خدارا انہیں دوسروں کی کہانیاں سمجھ کے بھول نہ جانا۔یہ تو ہم سب کی حقیقتیں ہیں۔اگر ہم اپنے والدین کے چہرے کی جھریوں میں دیکھیں تو زندگی کے کئی چہرے منعکس ہوں گے۔کتابوں کا علم اور ہے اور علم کی کتابیں دوسری بات۔چہروں کو دیکھنے والے گزر جاتے ہیں اور صورتوں کو پڑھنے والے ٹھہر جاتے ہیں۔اکلاپا دکھوں کا سرطان ہے۔والدین کو اکلاپے کا دکھ دینے والا بڑھاپے کے عذاب سے ضرور گزرتا ہے۔۔اکلاپا دور رہنے کا نام نہیں بلکہ دور ہو جانے کا نام ہے۔کبھی ہم نے سوچا کہ والدین کے چہرے کو دیکھنا عبادت کیوں کہا گیا؟اللہ پاک ہم کو بار بار اپنے والدین کا چہرہ دیکھنے کی ترغیب کیوں دے رہا ہے؟۔بس اسی لیے کہ اللہ سوہنا چاہتا ہے کہ بوڑھے والدین کی آنکھوں میں بے بسی نہ ہو۔ان کے چہرے کی جھریوں میں عذاب تنہائی نہ ہو۔اولاد کی توجہ ہی ان کے کا نپتے ہاتھوں کا سہارا ہے۔ ایک دن میں نے بابا جی سے پوچھا کہ بابا یہ اکلاپا کیا ہوتا ہے؟بابا جی بولے۔ سالک بیٹا، بوڑھے والدین کو یہ احساس دلا دینا کہ اب گھر میں ان کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں ۔۔ بس یہی اکلاپا ہے۔ سالک وٹو

عمل اور مقصد




تحریر ۔۔ سالک وٹو         
 
 ہم جب بھی کوئی عمل کرتے ہیں ۔تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد یا مفاد ضرور ہوتا ہے ۔حتی کہ ہم گھر میں کوئی بٹن اگر بھی دباتے ہیں  تو اس کے پیچھے بھی کسی پنکھے یا بلب کے چلانے کا مقصد ہوتا ہے ۔اگر عمل سے مقصد یا نتیجہ نکال دیں تو عمل سوائے ایک ورزش کے کچھ بھی نہیں ۔
  جہاں با جماعت نماز کے بے شمار فوائد اور فضیلتیں ہیں وہیں پہ اس عمل کا ایک خاص مقصد بھی ہے ۔ہم اگر اسلام کے ابتدائی دور کو بغور دیکھیں تو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم   سارا دن رزق حلال کے لیے محنت مزدوری کرتے ۔پہاڑی علاقہ تھا ۔بھیڑ بکریوں اور اپنے اونٹوں کی خوراک کے لیے دور دراز تک جانا پڑتا تھا ۔لوگوں کے پاس مل بیٹھنے کے وقت کی بہت قلت تھی ۔  لوگ تجارت پہ نکل جاتے تو کئی کئی ماہ تک واپسی نہ ہوتی ۔اور بہت سے واقعات ملتے ہیں  جب مسافر بھوک اور پیاس کی وجہ سے ملک عدم   کی طرف کوچ کر جاتا۔تو اس وقت با جماعت نماز ایک ایسا عمل اور پلیٹ فارم تھا کہ جس میں سب لوگ اکھٹے ہوتے ۔ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہوتی۔نبی پاک ﷺ  کی صحابہ کرام کی پاک جماعت کے ساتھ جو شخص باجماعت سے غیب رہتا اس  کی خبر گیری فرماتے کسی کو کوئی مدد درکار ہوتی یا کسی بیماری میں گھرا ہوتا تو مسجد میں پہنچ جاتا اور سب ایک دوسرے کا احساس کرتے ۔حتی کہ کافروں کے ساتھ جتنے معرکے ہوئے ان کی ساری ترتیب مسجد میں ہی بیٹھ کے کی گئی ۔اور اصحاب صفہ سے کو کون نہیں جانتا مسجد میں ہی ایک طرف وہ چبوترا تھا جس پہ وہ لوگ بیٹھتے جو اپنے گھر بار چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے ۔یا جن کا کوئی ظاہری سہارا نہیں تھا۔ ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا بھی مل جل کے انتظام کیا جاتا                                                       باجماعت نماز کے بے شمار فوائد و ثواب کے ساتھ ساتھ اس عمل کا بنیادی مقصد ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہے ۔اور آگاہی کے بعد ایک دوسرے کی مدد ہی اس عمل کا بنیادی مقصد ہے ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ۔خیر الناس من ینفع الناس (بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ مفید ہو )                                                آج کل اس انتہائی اہم مقصد کو یکسر بھلا دیا گیا ہے ۔مسجد مین تو مولوی حضرات اور پرانے پکے سینئر نمازی آواز بھی نہیں نکالنے دیتے ہر طرف ہو کا عالم ہوتا ہے کسی کے حالات سے آگاہی کیسے ہو ۔اور مساجد میں اکثر لوگ تو ایک دوسرے کے نام سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں ۔کافی عرصہ اکھٹے نماز پڑھتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے سے بالکل اجنبی رہتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے اس با برکت عمل کا مقصد الگ کر دیا گیا ہے تو اس عمل کے وہ ثمرات بھی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں ۔                                                                                                                                    بلکہ آج تو ایک نئی بات سے واسطہ پڑا ۔ میں پچھلے کچھ دن سے ایک مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہوں ۔ظہر اور عصر کی نماز کے فرضوں کی ادائیگی کے بعد با آواز بلند کلمہ شریف اور صلواۃ سلام کے چند صیغے سارے نمازی مل کے پڑھتے ہیں ۔میں نے آج امام صاحب سے عرض گزاری کہ حضور باقی نمازوں میں آپ یہ عمل نہیں دہراتے صرف ظہر اور عصر میں ہی کیوں یہ عمل کرتے ہیں ؟                                                                         تو فرمانے لگے ۔۔
۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہماری مسجد ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں مختلف ماکیٹیں اور دکانیں ہیں اور زیادہ تر نمازی یہ دکاندار ہی ہوتے ہیں اہل محلہ تو بس چند لوگ ہی ہیں ۔ہمارے نمازیوں میں سے 2 نمازی ہیں جن کا عقیدہ غلط ہے وہ صرف ظہر اور عصر کی نماز اس مسجد میں پڑھتے ہیں ۔ اس لیے ہم صرف ان کو چوٹ کرنے کے لیے صلوۃ و سلام پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو مناسب نہیں تو اس نے ایک شعر سنا دیا کہ                                                                                                      غیظ سے جل جائیں بے دینوں کے دل ؛                                                                                                         یا رسول اللہ ﷺ کی کثرت کیجیے                                                                        مولوی صاحب کا یہ جذبہ دیکھ کے میں تو سکتے میں رہ گیا ۔وہ مسلمانوں کی اعلی ظرفیاں اور کردار کہاں گم ہو گئے وہ محبت اور احساس کی دولت کس نے چھین لی ہم سے ۔آج کل سچے لوگوں کی باتیں کرنے والے کو ہی ہم کردار کا غازی سمجھ بیٹھے ہیں ۔کاش ہم با جماعت کے عمل کے مقصد کو سمجھ پائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ شکریہ  ۔۔ سالک وٹو۔

۔شریعت ۔ طریقت ، معرفت اور حقیقت ۔

۔۔شریعت ۔ طریقت ، معرفت اور حقیقت ۔۔

تحریر ۔سالک وٹو۔۔۔۔۔۔۔۔شریعت ۔ طریقت ، معرفت اور حقیقت ۔۔
شریعت ۔ طریقت ، معرفت اور حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حوالے سے میں جو بھی بات کروں گا وہ میری اپنی بات ہو گی وہ میرا اپنا عقیدہ ہے وہ میرا اپنا راستہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جو میں نے سمجھا ، جو میں نے دیکھا اور جو میں نے محسوس کیا ۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کوئی کتاب یا کوئی دوست میری اس بات کو تسلیم نہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ سب کا الگ الگ سفر ہوتا ہے
جیسے روح کا لباس جسم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسم کے بغیر روح ایک ماورائی سی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔ایسے ہی ساری منازل کا لباس شریعت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریعت کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ہاں وہ لوگ جو پیدائشی اللہ یافتہ ہیں (مجذوب) وہ اس سے باہر ہیں
ہر انسان کو اللہ پاک نے پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پیدائش کے مقاصد کے حوالے سے مختلف جگہ پہ مختلف احکام فرمائے ۔۔۔
جیسے ۔قران پاک میں ہے ۔انسان اور جن میں نے اپنی عبادت کے لیے بنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسری جگہ فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وعبد ربک حتی یاتیک الیقین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کی عبادت کر جب تک تو کامل یقین کو نہیں پا لیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور جگہ فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کنت کنز مخفیا۔۔۔۔میں ایک چھپا خزانہ تھا اور مجھے اپنے سے محبت ہوئی اور میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب انسان کی تخلیق کے مختلف مقاصد بیان فرمائے ۔۔۔جو حقیقت میں ایک ہی ہیں ۔۔۔۔۔کہ اللہ کی عبادت اور اس کی پہچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان کا اپنا مزاج ہوتا ہے ۔ سب کے جدا جدا دماغ اور سوچیں ہیں ۔۔۔۔۔اور کوئی ہر بات کو اپنے انداز میں سوچتا اور سمجھتا ہے ۔۔
سب انسان اللہ سوہنے کی پہچان میں نکلے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔اپنے اپنے مذہب کے رنگ میں ۔اپنے اپنے روپ میں کوئی جوگی کوئی سادھو ۔۔۔۔۔وغیرہ اور اللہ سوہنے کو پانے کا بس ایک ہی راستہ ہے جو ذات مصطفےﷺ پہ جا کے ختم ہوتا ہے
ہر کوئی سفر میں ہے ۔۔۔۔شریعت نبی پاک ﷺ کے راستے کو کہتے ہیں ۔۔۔جس طرح نبی پاک ﷺ نے عملی طعر پہ زندگی گزاری ۔۔
کچھ مسافر اپنی ساری زندگی بس اس عمل کی نقل میں گزار دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو اس کھوج میں لگ جاتے ہیں کہ جب کوئی بھی عمل نبی پاک ﷺ کرتے تو اس وقت ان کی کیفیت کیا ہوتی ۔مطلب جو عمل کے ساتھ ہر عمل کی کیفیت بھی چاہتے اور مانگتے ہیں وہ شریعت کے ساتھ طریقت پہ بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔شریعت عمل طریقت کیفیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کچھ مسافر ایسے ہوتے ہیں جو شریعت کا لباس اوڑھ کے طریقت کی کیفیت بھی پا لیتے ہیں ۔۔لیکن ابھی تک ان کی روح پیاسی ہوتی ہے ۔وہ تشنگی محسوس کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ اس کھوج اور جستجو میں جگ جاتے ہیں کہ عمل ٹھیک ہے بہت ضروری ہے ۔۔۔لیکن مزا تب ہے جب اس ذات کو پایا جائے جس کے لیے ہم شریعت کا لباس اوڑھے ہوئے ہیں اور جس کے لیے ہم طریقت کی کیفیت میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مطلب ۔ شریعت لباس۔ طریقت کیفیت اور معرفت پہچان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان مسافروں میں کچھ پاگل اور من موجی مسافر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس پہ بھی صبر نہیں کرتے اور حقیقت کا پردہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ من عرف نفسہ عرف ربہ ۔ جس نے اپنے آُ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور جگی یوں بھی اشارہ کیا کہ ۔۔۔۔الانسان سری وانا سرہ ۔( انسان میرا بھید اور میں انسان کا بھید ہوں ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ خاص مسافروں کے لیے یہ بھی اشارہ کیا کہ ۔۔۔۔ قلب الانسان بیت الرحمن (انسان کا قلب اللہ کا گھر ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔جسے صرف سمجھنے کےلیے ان مسافروں نے مختلف نام دیے ہیں ۔جن میں سے ایک ہے وحدۃالوجود ۔۔۔۔۔
مطلب ۔شریعت لباس ۔ طریقت ۔ کیفیت ۔ معرفت ۔ حاصل کی طلب اور حقیقت ۔ اللہ ہی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔جیسے بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ ۔جہڑی شکل عین دی اوہو شکل غین ۔۔۔۔۔اک نقطے دا فرق ہ جانے بھلی بھرے کونین ۔۔
یہ بات یاد رہے کہ یہ سارا سفرلباس (شریعت) کے ساتھ طے کرنا ہے ۔شریعت نہیں تو سب لاحاصل۔۔۔۔۔۔ سالک وٹو

الٹی گنگا

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالک وٹو ۔۔ ''' الٹی گنگا '' آج 23 اکتوبر ،9 محرم اور جمعۃ المبارک کا دن تھا ۔کیوں کہ میرا تعلق پاکپتن سے ہے ۔اس لیے محرم کی باقی نسبتوں کے ساتھ اس مہینے بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک بھی ہوتا ہے ۔اور بہشتی دروازہ بھی 6 محرم سے 10 محرم کی رات کو کھلتا ہے ۔ جس میں عقیدت مند لاکھوں کی تعداد میں حاضری دیتے ہیں ۔۔۔ آج کافی عرصے کے بعد میں جمعہ کی ادائیگی کے لیے ایک مسجد جا پہنچا ۔خطبہ شروع ہونے میں ابھی 20 منٹ باقی تھے ۔اور خطیب صاحب بڑے زور و شور سے اپنے نظریات لوگوں کے ذہنوں میں ڈال رہے تھے ۔وہ بار بار اس بات پہ زور دے رہے تھے کہ جو لوگ بابا فرید رح کے بہشتی دروازے کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ گستاخ ہیں ۔ایسے لوگ دین کے منکر ہوتے ہیں اور یہ لوگ آخرت میں شفاعت سے محروم رہیں گے اور سیدھے جہنم میں جائیں گے ۔ایسے گستاخ لوگوں سے میل جول رکھنے سے نبی پاک ﷺ ناراض ہوتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں وہ مسلمانوں میں بڑے زورو شور سے نفرت پھیلا رہا تھا ۔اور لوگ اس قدر محویت میں تھے جیسے خطیب صاحب کا ذاتی فلسفہ ہی اللہ و رسول ﷺ کا حکم ہو ۔۔۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس مسجد میں سارے بہشتی دروازے کو ماننے والے اور بزرگوں سے عقیدت رکھنے والے ہی آتے ہیں ۔بہشتی دروازے کے جو انکاری ہیں وہ اپنی مسجد میں ہوں گے ۔ اور آج کل لاوڈ اسپیکر کی بھی اجازت نہیں کہ جس سے خطیب صاحب کے احکامات دوسروں تک پہنچ سکیں۔تو پھر چاہیے تو یہ تھا کہ جو موجود ہیں یا ہم خیال ہیں ان کو مزید فضیلت وبرکتیں بتائی جاتیں ۔لیکن خطیب صاحب غیر موجود لوگوں کی برائیاں کرنے لگے ہوئے تھے۔اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت پھر رہے تھے ۔ جوں توں کر کے وقت ختم ہوا اور میں اسی سوچ میں ڈوبا واپس گھر چل دیا کہ میں نے بڑا عرصہ ہوا ان واعظین کے اسی رویہ کی وجہ سے مسجد تک جانا چھوڑ دیا تھا اور اللہ پاک سے دن رات دعائیں بھی کرتا تھا کہ اے اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو قریب کر دے ۔ احساس عطا فرما ۔پم نفرت کا باعث نہ بنیں ۔لیکن ابھی تک واعظین و خطباء کی وہی روش ہے ۔میں اپنے خیال کی پرواز سے کچھ سال پیچھے ماضی میں چلا گیا ۔۔ میں نے جس علاقے میں زندگی گزاری وہاں پہ فرقے کے لحاظ سے ۔ دیوبندی ۔ اہل تشیع ۔بریلوی ۔ اہل حدیث ۔اپنی اپنی جماعت کے نظریات کی تبلیغ کو ہی اسلام کی خدمت سمجھتے تھے ۔۔ ان سب مسالک سے میرا بڑا قریبی تعلق رہا ہے ان سب کے مدارس میں کچھ نہ کچھ عرصہ علم دین بھی سیکھنے کی جسارت کی ۔۔۔۔بریلوی حضرات کے بہت سے جلسے اٹینڈ کیے ۔ میلاد شریف کی بہت سی مجلسوں میں حاضری دی ۔کافی جمعے ان کی نذر کیے ۔۔یہ حضرات اپنی مساجد میں ان موضوعات پہ ہی بات کرتے پائے جاتے ہیں کہ ۔ جو لوگ میلاد نہیں مناتے۔جو اذان سے پہلے درود و سلام نہیں پڑھتے،جو انگوٹھوں کو نہیں چومتے ۔گیارہویں نہیں کرتے یا گیارہویں والے کو نہیں مانتے ۔۔جو علم غیب کا انکار کرتے ہیں ، جو شفاعت کے دلائل مانگتے ہیں ۔جو پیر کو حاضر ناظر نہیں سمجھتے۔ ۔ وہ گستاخ ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺ ان سے ناراض ہیں۔ایسے لوگوں سے تعلق رکھنا اپنی آخرت خراب کرنا ہے۔۔ دیوبندی حضرات کو بھی بڑے قریب سے جانا۔ان کے موضوعات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ۔تبلیغ ہی سب کچھ ہے ، جو تبلیغی جماعت کو برا کہتے ہیں ،جو میلاد مناتے ہیں ، جو جلوس و عرس مناتے ہیں ۔جو پیروں کو حاجت روا مانتے ہیں ،یہ سب بدعتی ہیں اور یہ سب گمراہ ہیں ۔ان سے مکمل طور پہ بچو ۔اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ ان سے ناراض ہیں ۔ اہل حدیث میرے بہت اچھے دوست تھے ۔ان کے علماء کے پاس بھی کافی سنگت رہی ۔یہ اپنی مساجد و خطباء میں بس یہی تلقین کرتے ہیں کہ ۔جو کسی امام کی تقلید کرتا ہے ،یا جو کسی مرشد کی پیروی کرتا ہے ۔یا کسی بھی بزرگ کو وصال کے بعد زندہ تصور کرتا ہے ۔ یاجو کافروں پہ حمل آور نہیں ہوتا ۔وہ دین سے خارج ہے ایسےٍ لوگوں سے تعلق رواداری ناجائز ہے ۔۔۔ اہل تشیع حضرات کے جذبات بھی ملتے جلتے ہی ہیں ۔یہ کہتے ہیں کہ جو آل رسول ﷺ کو ہماری طرح نہ مانے وہ دائرہ اسلام سے باہر ہے ۔جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل نہیں کہتا ۔جو محرم میں مجلس نہیں کراتا یا مجلس کو اچھا نہیں سمجھا ۔جو یزید کو کافر نہیں کہتا وہ خود کافر اور گستاخ اہل بیت ہے ۔۔۔۔ اتی لمبی تمہید بیان کرنے کا میرا مقصد کسی کی وکالت کرنا نہیں ۔نہ ہی میرے پاس اتنا علم ہے کہ میں کسی پہ بھی ہٹ کر سکوں یا کسی کو بھی دائرہ اسلام سے باہر چھوڑ آوں اور خود اس دائرے پہ مکمل قبضہ جما لوں ۔۔۔۔میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہر مسلک کا مسلمان اپنی ہی مسجد میں جاتا ہے اور اپنے مسلک کی محافل ہی اٹینڈ کرتا ہے ۔تو خطیب ۔مبلغ ، واعظین ، مقرر اور مجلس پڑھنے والے اپنے پاس موجود لوگوں کو اپنے نظریات و عقائد محبت سے سمجھائیں ۔اپنے عقائد کی برکتیں اور فضیلتیں بتائیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ہوتا کیا ہے سب کے سب ہی اپنی بات کرنے کی بجائے دوسرے کے گھر میں پہنچ جاتے ہیں ۔اقرار والوں کو حوصلہ اور نوید سنانے کی بجائے انکار والوں کی نفرت سکھاتے ہیں ۔ ہو کوئی اپنے متعلقین کو دوسروں کے خلاف کر رہا ہے۔دوسروں سے بائیکاٹ کا درس دیا جا رہا ہے ۔ہر مسلک اپنے نظریات کو ہی مکمل اسلام سمجھ بیٹھا ہے ۔ ایک دفعہ میں ایک سنی مسجد میں گیا ۔خطیب صاحب نے کوئی پونا گھنٹہ ماتم پہ شدت بھری تقریر کی۔۔ بعد میں مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا کوئی شیعہ بھی اس مسجد میں آتا ہے ۔ بولے ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔ میں نے پوچھا ۔کیا کوئی سنی کچھی ماتم کرتا ہے ؟ بولے ۔ کبھی بھی نہیں نعوذ باللہ ۔ میں عرض کی ۔حضور تو پھر یہ پونا گھنٹا کس کو ماتم کی حقیقت سے آگاہ کر رہے تھے ؟۔ بات یہ ہے کہ۔!! نفرت انگیزی کا موقع ہاتھ سے ہم جانے نہیں دیتے۔ یہ واعظانِ ہنگامہ جو ، یہ قلمکاران ِ بے وقت، یہ علمائے بے محل اور یہ ناصحانِ بے سمت اگر یہ اپنے علم کے ہیجانی حصے سے رخصت لے لیں تو مذھب کا کون سا نقصان ہو جائے گا ۔ اور اس سلسلے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی اپنی مسجد سے دوسروں کے خلاف شر انگیز تقریریں سن کے نمازی حضرات معاشرے میں جگہ جگہ اپنے مولوی کے حوالے دے کے مسلانوں میں دوری ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ان پیشہ ورانہ مقررین کو حرف آخر سمجھنے والے مسلمان دین کی خدمت میں اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔کاش ہم اپنے سوہنے نبی ﷺ کی زندگی مبارک کو اپنے پہ لاگو کرتے ۔ نبی پاک ﷺ کی زندگی تو ساری کی ساری محبت بانٹنے اور خدمت خلق میں گزری ۔اور ہم ہیں کہ اپنے اپنے جماعتی منشور کو ہی قران وحدیث سمجھ بیٹھے۔اگر کوئی جوان اپنے علماء سے کوئی دوسرے مسلک کی حمائت کا مسلہ پوچھ بھی لے تو وہ اسے عربی قوائد و مطالب کی موشگافیوں میں ڈال کر یا من گھڑت تاریخی واقعات سنا کر بس اپنے نظریات پہ ہی ڈٹے رہنے کا حکم دیتے ہیں ۔ جاری ہے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالک وٹو